اس کتاب میں علاقہ کے لوک ورثہ، تاریخ، نیز عمرانیاتی اور انسانیاتی پہلو سے ان تفصیلات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو بقول کرنل سلطان ظہور اختر ، سکندر یونانی کے حملہ سے لے کر خطے کی تاریخ، روایات، تمدن ، معاشرت، ثقافت اور اولیائے کرام کے تذکروں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ عزیز ملک اپنی کتاب کا آغاز اس کی وجہ تسمیہ سے کرتے ہیں، وہ یہاں کی روحانی فضا کا حال بیان کرتے ہوئے یونانی حملہ آوروں کی یلغار کا حوالہ دیتے ہیں ۔ جس کی طاقت کے سامنے ٹیکسلا کے راجہ ابھی نے گھٹنے ٹیک دیئے تھے۔ یونانیوں کے بعد وہ موریا خاندان ، خصوصاً اشوک کے عہد تعمیر و ترقی کا احوال بیان کرتے ہیں۔ موریائی زوال کے بعد یونانی باختری ، ساکا ، پارتھیں اور کہکشاں آئے۔ پانچویں صدی کے نصف آخر میں انہوں نے اس سرزمین کو تہ و بالا کیا ۔ خصوصاً گندھارا تہذیب کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ ٹیکسلا نیست و نابود ہو ، بدھ مت کی عبادت گاہیں ملیا میٹ ہو گئیں۔ مصنف محمود غزنوی اور غوری کےحملوں سے گزرتے ہوئے سکھ راج تحریک مجاہدین اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی تتاریخ کے بعد کتاب کا زیادہ اہم باب قدی مذہب اور لوک روایات سے جدا ہوا ہے
وہ عسکری روایات کا ذکر کرتے ہیں۔ شہری اور دیہی آبادیوں کے رسم و رواج ، ذات قبیلے برادریاں قدیم قلعے اور پوٹھوہاری فن تعمیر علم و ادب ، دستکاریاں ، معدنی وسائل کھیت ۔۔۔کھلیان اور لوگ ریت کے رنگ دو اہم موضوعات ہیں جو پوٹھوہار کی ایک اجتماعی تصویر، ایک زندہ پیکر کوسامنے لاتے ہیں
- help@toobaafoundation.com
Reviews
There are no reviews yet.