میاں شرف علی نوشاہی

موہری کھتریل کی اعوان برادری میں آنکھ کھولی اور 6 محرم 1914ء کو جرموٹ کلاں میں فوت ہوئے ۔ آپ میاں جی سچیاری نو شاہی تحصیل پر ہی تحصیل پنڈی گھیپ کے خلیفہ تھے۔ آپ کا کلام ابھی تک غیر مطبوعہ ہے اور مخدومہ امیر جان لائبریری میں محفوظ ہے۔ ان قلمی مسودات میں سی حرفی نوشہ گنج بخش اور ایک نا مکمل سی حرفی شامل ہیں۔ شجرہ نوشاہیہ سچیار یہ اور بارہ ماہ محمدی بھی ان کی یادگار ہیں۔ آپ نے دو شادیاں کی تھیں۔ اولاد میں دو بیٹے میاں محمد صالح اور میاں فضل حسین نوشاہی 19 جنوری 1988 ء پنجابی زبان کے پختہ شاعر تھے۔ دونوں اپنے والد مرحوم کی خانقاہ کے احاطے میں مدفون ہیں۔ ان دونوں صاحبان کا کلام بھی غیر مطبوعہ حالت میں محمد رضوان نوشاہی کے پاس ہے۔

میاں صالح محمد نوشاہی سلسلے کے مشہور روحانی بزرگ پیر سلطان علی سےبیعت رکھتے تھے۔ میاں فضل حسین نوشاہی کا کلام راقم الحروف کو بھی از بر تھا اورپسند کیا کرتے تھے کیونکہ اُن کا آخری دور حیات ہماری دید شنید کا زمانہ تھا۔

نمونہ کلام میاں شرف علی نو شاہی

ت ثابتی صدق یقین کر کے ، ہر وقت میں میں نوانو دی ہاں!

تیرے نام آتے تیرے ہاریا جی ، دم دم درود پہنچا تو دی ہاں!

گنج بخش میرا ساہن پال والا ، بندی اوس دی میں سدا تو دی ہاں!

ادہ پیر میرا سوہنا شرف علی ، اوس ہوندیاں غم نہ بھانو دی ہاں!

نمونہ کلام میاں فضل حسین نوشاہی:

راہ عشق دے سنبھل کے چل راہیا ، بازی سراں دی اس وچ لائی جاندی

سنھڑیں دیکھ تے بند زبان رکھڑیں ، منہ توں بولیاں کھل لہائی جاندی

 بڑھے اوپرے تے اوکھے راہ اس دے ، ایہ منزل نہ سوکھڑی پائی جاندی

 سر دینڑ بن فضل حسین اتھے ، جھاتی مار نہ سد بلائی جاندی