Dur e Jadeed K Mushtarqeen Aur Un Ka Andaaz Seerat Nigari (Constantin Virgil Gheorghiu , Michael Cook aur Karen Armstrong ) Aik Tehqeeqi o Tanqeedi Jaiza

(1 customer review)

دورِ جدید کے مستشرقین اور ان کا اندازِ سیرت نگاری (کانسٹن ور جل جورجیو،

مائیکل کک اور کیرن آرم سٹرانگ ) ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ

تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی علوم اسلامیہ

مقالہ نگار : فوزیہ فیاض

نگران مقالہ:پروفیسر ڈاکٹر محسنہ منیر

شعبہ علوم اسلامیہ،اسلامیہ لاہور کالج برائے خواتین یونی ورسٹی لاہور،پاکستان

Dur e Jadeed K Mushtarqeen Aur Un Ka Andaaz Seerat Nigari (Constantin Virgil Gheorghiu , Michael Cook aur Karen Armstrong ) Aik Tehqeeqi o Tanqeedi Jaiza

(PhD Thesis)

Research by : Fozia Fayyaz

DOWNLOAD

Categories: , , , Tags: , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

دورِ جدید کے مستشرقین اور ان کا اندازِ سیرت نگاری (کانسٹن ور جل جورجیو،

مائیکل کک اور کیرن آرم سٹرانگ ) ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ

تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی علوم اسلامیہ

مقالہ نگار : فوزیہ فیاض

نگران مقالہ:پروفیسر ڈاکٹر محسنہ منیر

شعبہ علوم اسلامیہ،اسلامیہ لاہور کالج برائے خواتین یونی ورسٹی لاہور،پاکستان

Dur e Jadeed K Mushtarqeen Aur Un Ka Andaaz Seerat Nigari (Constantin Virgil Gheorghiu , Michael Cook aur Karen Armstrong ) Aik Tehqeeqi o Tanqeedi Jaiza

(PhD Thesis)

Research by : Fozia Fayyaz

1 review for Dur e Jadeed K Mushtarqeen Aur Un Ka Andaaz Seerat Nigari (Constantin Virgil Gheorghiu , Michael Cook aur Karen Armstrong ) Aik Tehqeeqi o Tanqeedi Jaiza

  1. Dr.Abu Hayyan Saeed Zaidi Al-Azhari

    مستشرقین کی کہانیوں کی بنیاد کیا ہے؟
    ابو حیان سعید

    اورینٹلزم لاطینی لفظ اورینز سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے “مشرق” (لفظی طور پر ابهر تا ہوا سورج”)۔ یہ لفظ Occident کا مخالف ہے۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب “مشرق” یا “مشرقی” تھا۔
    ہم کہہ سکتے ہیں کہ اورینٹلزم مشرق وسطیٰ اور مشرق اور جنوب مشرقی ایشیا کے بارے میں مغربی خیالات یا تو حقیقت پسندانہ یا مفروضے کے طور پر جانا جاتا ہے۔
    بدقسمتی سے اسلام کے حوالے سے جدید دور کا استشراق ایک طرح کا مفروضی استشراق ہے، جس کی بنیاد نام نہاد مسلم علماء، فقہاء، محدثین اور مورخین کی جعلی، من گھڑت اور غیر اخلاقی احادیث اور روایات پر مبنی ہے۔

    سب سے پہلے عقل زوال پذیر ہوتی ہے
    پھر جو کچھ بھی سامنے آتا ہے
    وہ اُسی زوال کا اظہار ہوتا ہے ۔

    مستشرقین پر تنقید؟ کیوں ..
    سید ابوالحسن علی حسنی ندوی (1913~1999) مغربی مستشرقین کے فکر و فلسفہ کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :۔

    ” مسئلہ کا سنگین اور دور رس پہلو یہ ہے کہ مستشرقین اپنی تمام صلاحیتوں کو معقول و غیرمعقول طریقہ پر ان کمزوریوں کی نشان دہی اور ان کو نہایت ہی مہیب شکل میں پیش کرنے میں صرف کرتے ہیں ، وہ خوردبین سے دیکھتے ہیں اور اپنے قارئین کو دوربین سے دکھاتے ہیں ، رائی کا پر بت بنانا ان کا ادنی کام ہے ، وہ اپنے اس کام میں ( یعنی اسلام کی تاریک تصویر پیش کرنے میں ) اس سبک دوستی ، ہنر مندی اور صبر و سکون سے کام لیتے ہیں ، جس کی نظیر ملنی مشکل ہے ۔ وہ پہلے ایک مقصد تجویز کرتے ہیں ، اور ایک بات طے کر لیتے ہیں کہ اس کو ثابت کرنا ہے . پھر اس مقصد کے لیے ہر طرح کے رطب و یابس, مذہب و تاریخ ، ادب ، افسانہ شاعری مستند و غیرمستند ذخیرہ سے مواد فراہم کرتے ہیں ، اور جس سے ذرا بھی ان کی مطلب برآری ہوتی ہو ( خواه وه صحت و اسناد کے اعتبار سے کتنا ہی مجروح و مشکوک اور بے قیمت ہو ) اس کو بڑے آب و تاب سے پیش کرتے ہیں ، اور اس متفرق مواد سے ایک نظریہ کا پورا ڈھانچہ تیار کر لیتے ہیں ، جس کا اجتماعی وجود صرف ان کے ذہن میں ہوتا ہے ، وہ اکثر ایک برائی بیان کرتے ہیں اور اس کو دماغوں میں بٹھانے کے لیے بڑی فیاضی کے ساتھ اپنے ممدوح کی دس خوبیاں بیان کرتے ہیں ، تا کہ پڑھنے والے کا ذہن ان کے انصاف ، وسعت قلب اور بے تعصبی سے مرعوب ہو کر اس ایک برائی کو ( جو تمام خوبیوں پر پانی پھیر دیتی ہے ) قبول کرلے .

    اکثر مستشرقین اپنی تحریروں میں زہر کی ایک مناسب مقدار رکھتے ہیں ، اور اس کا اہتمام کرتے ہیں کہ وہ تناسب سے بڑھنے نہ پائے اور پڑھنے والے کو تنفر اور بدگمان نہ کردے ، ان کی تحریریں زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہیں ، اور ایک متوسط آدمی کا ان کی زد سے بچ کر نکل جانا مشکل ہے ۔ قرآن ، سیرت نبوی ، فقه و کلام ، صحابہ کرام ، تابعین ، ائمه مجتهدین ، محدثین وفقہاء ، مشائخ وصوفیہ ، رواۃ حدیث ، فن جرح و تعدیل ، اسماء الرجال ، حدیث کی حجیت ، تدوین حدیث , فقه اسلامی کا ارتقاء ان میں سے ہر موضوع سے متعلق مستشرقین کی کتابوں اور تحقیقات میں اتنا تشکیکی مواد پایا جاتا ہے جو ایک ایسے ذہین و حساس شخص کو جو اس موضوع پر وسیع و گہری نظر نہ رکھتا ہو پورے اسلام سے منحرف کر دینے کے لئے کافی ہے..”

    مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہے اور ساتھ ہی مجھے بتاتے ہوئے دکھ بھی ہے کہ
    ابوالحسن ندوی صاحب کی بات لفاظی , بسیار گوئی, کثرت الکلامی کے زمرے میں آتی ہے !

    مجلس التحقیق الاسلامی کے سابق رکن اور جامعہ الاسلامیہ لاہور کے فاضل ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کی تصنیف ” اسلام اور مستشرقین ” ہے ،جس میں انہوں نے مستشرقین کے حوالے سے تاریخی نوعیت کی تفصیلات جمع فرما دی ہیں.

    اس کتاب کو بہت غور سے پڑھنے کے بعد بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں۔
    کہ مستشرقین کو اپنی لاف زنی کے لیے کہانیاں کہاں سے ملتی ہیں ???
    اس پر کوئی بحث نہیں کرتا .. کیوں .. نہ ہی کوئی اس کی وجوہات بیان کرتا ہے کہ مستشرقین نے اسلام پر تنقید کیوں کی ؟ اور مستشرقین کو اسلام پر تنقید کی بنیادیں کہاں سے ملتی ہیں !!

    شبلی نعمانی کی کتاب “الفاروق”، اس کتاب میں شبلی نعمانی نے امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے دختر رسول صلی اللہ علیہ وسلم بی بی فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے گھر کا دروازہ جلانے کی دھمکی دی ۔ ملاحظہ ہو صفحہ نمبر 66. الفاروق..
    اس بندے شبلی نعمانی کی عقل کہیں گھاس چر رہی تھی؟
    یہ برصغیر کے مسلمانوں کی بدقسمتی ہےکہ مسلم تاریخ کو ایسے احمق اور بے حس لوگوں نے بیان کیا..

    مستشرقین کی اسلام پر تنقید کے اسباب :
    انیسویں صدی کے آخر میں سرسید احمد خان کے کام کو چھوڑیے، ہم پچھلے سو سال سے مستشرقین پر تنقید کر رہے ہیں لیکن اسلام، قرآن کریم، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول کے بارے میں مستشرقین کی تنقید کی وجوہات جاننے کے لیے تیار نہیں۔
    جدید مذہبی دانشور علماء کا عجیب یا غریب رویہ :
    نہ صرف برصغیر بلکہ عرب دنیا میں ہمارے جدید مذہبی دانشور علماء نے مستشرقین اور اشتراق کے بارے میں سینکڑوں کتابیں اور ہزاروں مضامین لکھے ہیں لیکن وہ جان بوجھ کر کبھی مستشرقین کی اسلام پر تنقید کے اسباب پر بحث نہیں کرتے۔

    مجبور ہیں یا ذہنی غلام ہیں یا فکری معذوری ہے .. میرے خیال میں تمام وجوہات ہیں۔

    ہمیں مستشرقین کی کتابوں کے بارے میں بہت زیادہ شکایات ملتی ہیں۔ ہمارے مسلمان مذہبی مصنفین اور دانشوروں کی شکایات ایسی ہیں مثال کے طور پر مستشرقین نے اپنی کتابوں وغیرہ میں یہ لکھا ہے اور وہ لکھا ہے… دراصل ہمارے مذہبی مصنفین اور دانشوروں کا رویہ مستشرقین اور اشتراق کے بارے میں بہت بچگانہ ہے۔ ہم ہر چیز کو یہود و نصاریٰ وغیرہ کی سازش سمجھتے ہیں۔
    ” یہود و نصاریٰ کی سازشی تھیوریاں” صدیوں سے مسلمانوں کی ہمہ وقت پسندیدہ ذہنی غذا رہی ہیں۔ دراصل ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم بالکل معصوم اور نا بالغ گائے ہیں۔ اور باقی لوگ چالاک، مکا ر، سازشی ، دھوکے باز ہیں۔ مجھے اپنے مسلمان علماء اور دانشوروں کے ذہنی رویے پر ہنسی آتی ہے۔

    اسلام کے بارے میں استشراق نام نہاد اسلامی تاریخ کی کتابوں، احادیث اور فقہ کے مجموعوں وغیرہ سے لیا گیا ہے۔ اسلامی تاریخ کے بارے میں کتابیں زبانی کہانیوں پر مبنی ہیں. میں دو مثالیں دینا چاہتا ہوں۔ جیسے “جناب زید نے کہا، میں نے جناب داؤد سے سنا اور جناب داؤد نے بتایا کہ اس نے ایک شخص سے سنا ہے۔ اس کی ملاقات ایک میلے میں ہوئی تھی جب کہ بہت سے لوگ اس کہانی سنانے والے قصہ گو کے ارد گرد اکٹھے ہو کر گھنٹوں بہت دلچسپ کہانیاں سنتے تھے۔ اور قصہ گو کا تعلق کوفہ سے ہے”.

    دوسری مثال یہ ہے کہ “بخاری نے بتایا کہ جناب زہری نے کہا کہ میں نے عروہ سے سنا ہے اور عروہ نے بتایا ہے کہ میں نے ایک ایسے شخص سے سنا ہے جس سے میں پہلے کبھی نہیں ملا تھا اس کا نام ابو ایاس تھا اور اس کا تعلق کہاں سے ہے یہ بھی نہیں جانتا “۔

    بدقسمتی سے وقت کی کمی اور تحقیقی کام کے بوجھ اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی وجہ سے میں مستشرقین پر تنقید کرنے والوں کی ڈیڑھ درجن سے زیادہ کتابیں اور درجنوں مضامین ہی پڑھ سکا ہوں، لیکن مجھے مختلف تغیرات میں تقریباً ایک جیسی بحثیں ملیں۔ یہ تمام مکالمے بار بار دہرائے جاتے ہیں اور کوئی بھی شخص تقریبا ایک جیسی بار بار ہونے والی گفتگو کو پڑھ کر بور ہو جائے گا۔ تمام مباحث تقریباً یکساں ہیں لیکن بیانیے میں مختلف انداز میں لکھے گئے ہیں۔
    ٹیبلٹ کے اجزاء ایک جیسے ہیں اور ذائقہ کڑوا ہے لیکن رنگ مختلف ہیں۔

    تبصرہ: جب آپ جب ہر قِسم کی گپ شپ، ہر طرح کے رطب و یابس’ مشکوک تاریخ، فرضی احادیث، شرمناک قصے کہانیوں کو 1400 سال اپنے سینے سے لگا کے رکھیں گے ،اور ان جعلی اور من گھڑت قصے کہانیوں کو روزانہ کی بنیاد پر زورو شور سے بیان کریں گے اور ان کو مذہب کی بنیاد قرار دیں گے تو لوگ ان کہانیوں پر ضرور بات کریں گے۔
    نام نہاد مسلم مورخین، محدثین، علماء، مفسرین نے مشکوک تاریخ، فرضی احادیث، صحابہ کرام کے درمیان جنگ کی جھوٹی کہانیاں بیان کیں۔ مسلمانوں میں یہ تمام جعلی اور من گھڑت روایات فرقہ واریت پھیلانے کا اصل ذریعہ ہیں خواہ شیعہ ہو یا سنی دونوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا اور فرقہ واریت پھیلانے کا یہ سلسلہ زورو شور سے جاری ہے۔ ان مورخین، محدثین، مفسرین اور نام نہاد علماء نے کتابوں میں اسلام کے بارے میں طرح طرح کی بدگمانیاں اور شکوک وشبہات پیدا کیے. قرآن اورحضورصلی الله علیہ وسلم کو خاص طور پر اپنی افترا پردازی ، طعن تشنیع اور تنقید کا نشانہ بنایا. ہمارے موجودہ اور پچھلی صدی کے مورخین کے پاس صرف ایک کام ہے کہ وہ ایرانی، خراسانی مجوس کی من گھڑت کہانیاں نقل کرتے ہیں۔

    کن افراد سے مستشرقین نے زبانی کلامی روایتیں لیں اور اپنی اپنی ڈفلی بجائی ..

    مستشرقین کے تمام ناقدین نے اپنی کتابوں اور مقالوں میں ہر صفحے کے بعد کچھ خاص رجحان والے جملے دہرائے “یہود و نصاریٰ کی اسلام کے خلاف سازشیں”، “یہود و نصاریٰ کی اسلام کے خلاف سازشیں”. کسی نے مستشرقین کے ان ناقدین سے نہیں پوچھا کہ جناب یہ سب لوگ جنہوں نے بغیر ثبوت کے ان زبانی کلامی کہانیوں کو اسلامی تاریخ کے عنوان سے گھڑ لیا، کیا سب یہودی تھے یا عیسائی؟

    میں ان میں سے صرف چند ایک شخصیات کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جنہیں مستشرقین “اسلامی تاریخ کا ستون” سمجھتے ہیں۔
    آئیے جانتے ہیں مستشرقین کے کچھ ” قیمتی ہیروں” کے بارے میں، جن کی کہانیوں کو بنیاد بنا کے مستشرقین نے اپنی زندگی فضول قصے کہانیوں میں برباد کی..

    مستشرقین کی کہانیاں ابن اسحاق (85ھ ~ 150ھ)، الواقدی (130ھ ~ 207ھ)، ابن ہشام (متوفی 218ھ)، ابن سعد (168ھ ~ 230ھ)، ابن جریر طبری (224ھ ~ 310ھ)، ابن شہاب زہری (58ھ ~ 124ھ) وغیرہ کی زبانی روایتوں پر مبنی ہیں۔

    ابن اسحاق (85ھ ~ 150ھ)، محمد بن اسحاق بن یسار بن خیار (85 ہجری تا 150 ہجری) ابن اسحاق آٹھویں صدی کے قدیم ترین سوانح نگار ہیں جن کی مشہور کتاب “سیرت ابن اسحاق” کے نام سے مشہور ہے۔ یہ کتاب اب ناپید ہے لیکن اس کتاب کا نثری حصہ “سیرت ابن ہشام” میں لیا گیا ہے۔ بغیر ثبوت کے زبانی طور پر تاریخ کہنے کی ان کی قابلیت مشہور تھی، ان کی روایات کو اسلامی تاریخ کے پھولوں کا قدیم ترین گلدستہ سمجھا جاتا ہے۔

    ابن ہشام (متوفی 218ھ)، عبد الملک بن ہشام الحمیری (متوفی: 218ھ) جسے “ابن ہشام” کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک مشہور مسلمان مورخ تھا جو بصرہ میں پیدا ہوا اور مصر میں فوت ہوا۔ وہ ایک مشہور قصہ گو تھے اور تاریخی کہانیاں سناتے تھے۔ ۔ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مرتب کی ہے جو سیرت ابن ہشام کے نام سے مشہور ہے۔ انہوں نے یہ کتاب ابن اسحاق کے شاگرد زیاد البقعی (متوفی 183) کتاب المغازی و السیر کی مدد سے مرتب کی۔
    ابن ہشام نے بتایا کہ انہوں نے اپنی “سیرت ابنِ ہشام” ابن اسحاق کے طالب علم زیاد البقعی سے زبانی سن کر مرتب کی جو زیادہ تر کوفہ میں رہتا تھا.

    لیکن بدقسمتی سے اس شخص زیاد البقعی کے بارے میں تفصیلات کوئی نہیں جانتا۔

    الواقدی (130ھ ~ 207ھ) محمد بن عمر بن واقدی (130ھ ~ 207ھ) جسے “الواقدی” کہا جاتا ہے مدینہ کے بنو اسلم کا آزاد کردہ غلام تھا۔ الواقدی بنیادی طور پر اپنی کتاب ” التاریخ و المغازی ” کے لیے جانا جاتا ہے۔ ، جو اس کے کام کا واحد حصہ ہے جو مکمل طور پر محفوظ کیا گیا ہے لیکن الواقدی کے تمام بیانات زبانی کلامی کہانیاں ہیں۔
    تمام مستشرقین نے اس کو اسلامی تاریخ میں ایک ستون سمجھا اور اس سلسلے میں اس کی روایات کو قبول کیا، آئیے جانتے ہیں کہ مسلم علماء نے واقدی کے بارے میں کیا کہا؟

    امام شافعی (متوفی 204ھ) نے فرمایا: واقدی کی تمام کتابیں جھوٹی ہیں، مدینہ میں سات آدمی تھے جو احکام کو گھڑتے تھے، جن میں سے ایک الواقدی تھا۔
    احمد بن حنبل (متوفی 241ھ) نے کہا کہ یہ جھوٹا ہے، روایات میں ردوبدل کرتا ہے۔
    النسائی (متوفی 303 ہجری) نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو گھڑنے والے جھوٹے چار ہیں، وہ یہ ہیں: اربعہ بن ابی یحییٰ مدینہ، الواقدی بغداد، مقاتل بن سلیمان خراسان میں سلیمان اور شام میں محمد بن سعید۔
    یحییٰ بن معین (متوفی 233ھ) نے کہا کہ وہ ضعیف ہے، وہ کچھ بھی نہیں، قابل اعتماد نہیں۔
    اسحاق بن راہویہ (متوفی 238ھ) نے کہا کہ میرے خیال کے مطابق وہ حدیث گھڑنے والوں میں سے ہے۔
    علی المدنی (متوفی 241ھ) نے کہا کہ اس نے حدیث گھڑ لی۔
    ابوداؤد (متوفی 275ھ) نے کہا کہ میں اس کی حدیث نہیں لکھتا اور نہ اس کی سند سے روایت کرتا ہوں۔
    ابو حاتم محمد بن ادریس الرازی (متوفی 277ھ) نے کہا کہ “وہ حدیث گھڑتا ہے، ہم نے اس کی حدیث کو چھوڑ دیا ہے”
    الدارقطنی (متوفی 385 ہجری) نے کہا کہ “اس میں کمزوری ہے
    علی ابن المدینی (متوفی 241ھ) نے کہا کہ وہ حدیث گھڑتا ہے۔
    ابن عدی (متوفی 365ھ) نے کہا کہ اس کی روایات محفوظ نہیں ہیں اوراس کی روایات کو قبول کرنے میں خطرہ ہے۔
    ابو زرع الرازی (متوفی 264ھ) نے کہا کہ “واقدی کی تحریر لاوارث، ضعیف”
    النووی (متوفی 676ھ) نے کہا: ان کا (محدثین علماء) کا اجماع ہے کہ الواقدی ضعیف ہے۔
    محمد ناصر الدین البانی (متوفی 1999 عیسوی) نے کہا کہ الواقدی جھوٹا ہے۔

    آپ سب کے لیے اور میرے لیے انتہائی حیران کن اور ہولناک انکشاف ہے کہ
    اس کی صداقت پر سوال اٹھانے والوں میں سے بھی بہت سے لوگ اسے تاریخ کا ستون سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں اس کی روایتوں کو قبول کرتے ہیں۔
    ابن حجر عسقلانی (متوفی 852ھ) لکھتے ہیں: “وہ ہمارے نزدیک جنگوں کی روایات میں قابل قبول ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔”

    الواقدی تاریخ سمیت کثرت سے احادیث بھی گھڑتا تھا اور محدث کی حیثیت سے بغداد میں سینکڑوں فرضی احادیث بیان کرتا تھا اور بغداد میں ہزاروں لوگوں نے اس سے یہ ‘چسکہ’ جعلی کہانیاں بخوشی مزے لے لے کر سنی تھیں۔ میں نے کئی بار بتایا کہ پہلی صدی ہجری کے آخری نصف میں اور دوسری و تیسری صدی ہجری میں بغداد، کوفه، خراسان، شام وغیرہ جعلی حدیثوں اور واقعات کے گھڑنے کا مرکز تھے۔
    ہزاروں جھوٹے ان روایتوں کو گھڑ نے اور سنانے میں دن رات مصروف تھے اور لاکھوں احمق ان کو مزے لے لے کر سننے میں مصروف تھے. کیا مناظر ہوں گے ان دنوں .. !!

    محمد بن سعد (168ھ ~ 230ھ) جسے ابن سعد کے نام سے جانا جاتا ہے، اس نے کئی دہائیاں الواقدی کے ساتھ گزاری اور واقدی کی روایتیں لکھیں، اسی لیے ابن سعد کا لقب ” کاتب الواقدی” پڑا۔ وہ طبقات ابن سعد المعروف ” طبقات الکبیر” کی تالیف کے لیے مشہور ہوا۔ اس کتاب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے لے کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے زمانے تک کی اہم شخصیات کا تذکرہ ہے اور اسے ہر نئے مورخ نے استعمال کیا ہے۔
    یہی وجہ ہے کہ ایک ہزار سال سے زائد عرصے سے ہر مورخ نے ابن سعد کی روایتوں کو اپنی تالیفات میں حوالہ جات کے لیے بہت زیادہ استعمال کیا ہے اکثر مورخین نے اس کی روایتوں کو اپنی کتابوں میں اسی طرح نقل کیا ہے اور کبھی اپنے دماغ کا استعمال نہیں کیا۔

    محمد بن جریر ابن یزید الطبری (224 ھ ~ 310 ھ ) ابن جریر طبری امول , طبرستان شمالی ایران سے تعلق رکھنے والے ایک ایرانی مورخ تھے۔ ان کی سب سے زیادہ بااثر اور مشہور تصانیف میں ان کی قرآنی تفسیر ، جسے عربی میں تفسیر الطبری کے نام سے جانا جاتا ہے، اور انکی تاریخی کتاب ” تاریخ الرسول و الملوک ” کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے اکثر تاریخ الطبری کہا جاتا ہے۔
    ابن جریر طبری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان ہونے والی جنگوں کی جعلی اور جھوٹی تاریخ بغیر کسی ثبوت کے جمل، صفین کے نام سے بیان کرتا ہے۔ ابن جریر طبری نے کربلا، معاویہ اور یزید وغیرہ کے قصے مشتبہ زبانی ذرائع سے بیان کیے ۔ اسی لیے ابن جریر طبری مستشرقین کا محبوب بن گیا۔
    تاریخ الطبری چالیس جلدوں پر مشتمل ہے (عربی میں اصل) جو آسانی سے دستیاب ہیں۔ اس کتاب کے دیباچے میں شروع میں لکھا گیا ہے کہ اس میں بیان کیے گئے تمام واقعات کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے اور یہ سب باتیں لوگوں سے سن کر لکھی گئی ہیں؛ الطبری کے بعد تمام مورخین ان کے نقش قدم پر چلتے رہے ہیں۔ خلیفہ بن خیاط , ابن قتیبه دینوری , یعقوبی , بلاذری , خطیب بغدادی , ابوالفضل بیہقی , ابن جوزی , ابن خلکان , ابن ندیم , ابن کثیر , جلال الدین سیوطی , ابن خلدون , اکبر شاہ خان نجیب آبادی,شبلی نعمانی, صفی الرحمٰن مبارک پوری کوئی بھی ہو تمام مورخین ان کے نقش قدم پرچلتے چلے آ رہے ہیں ..

    پچھلی صدی کے تمام تقریبا مسلمان مورخین اپنی نام نہاد تاریخ کی کتابوں میں کہانیاں سناتے ہیں “طبری نے یہ لکھا”، واقدی نے لکھا”، “مسعودی نے یہ لکھا” “زہری یہ کہتا ہے” “ابن ندیم یہ کہتا ہے”، “ابن خلدون”۔ یہ لکھتا ہے” وغیرہ وغیرہ۔

    میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ میں حقیقت اور گپ شپ کا تجزیہ کرنے کی کوئی عقل اور صلاحیت ہے یا نہیں؟ کیا آپ عقل سے پیدل چلتے چلے آ رہے ہیں ؟

    ارنلڈ جے ٹوائن بی(A.J.Toynbee 1889-1975) عہد جدید کا نامور مورخ ہے جس نے مذاہب کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اور اپنی تصنیف ” مطالعہ تاریخ ” میں اسلام کے بارے میں عمومی طور پر معقول رویے کا اظہار کیا ہے۔ ٹوائن بی کے بارے میں جو ایک مثبت رائے قائم ہوئی تھی کہ اس نے اپنی تحقیق کے نمونے اپنی کتابوں میں پیش کیے ہیں اوراس کی شخصیت عالمی حوالہ جات کا منبع و ماخذ قرار پائی تھی۔ لیکن آپ ﷺ کے بارے میں اس کی یہ رائے بڑی ناقص معلوم پڑتی ہے اس لیے کہ اس نے نبی آخر الزماں کا موازنہ جنگجو سیزر سے کردیا اگر تعصب سے پرے اس نے دونوں شخصیتوں کا علمی و تحقیقی اور عقلی و استدلالی مطالعہ کیا ہوتا تو اسے نبی کریمﷺ کے بارے میں ایسی رائے دینے سے پہلے ہزار بار سوچنا پڑتا اس کا یہ طرز عمل نبیﷺ کی شان میں بدترین گستاخی اور تذلیل و تحقیر ہے۔ اسلامی تاریخ کے بارے میں ٹوائن بی کی کتاب کے ابواب پرانے مسلم مورخین کے بیانات پر مبنی ہیں۔
    آرنلڈ جے ٹوائن بی تاریخ میں “برطانوی کرسچن جہالت” کی ایک کلاسیکی مثال ہے۔

    نا انصافی ہو گی کہ ایک بہت ہی مشہور شخصیت کا ذکر خیر نہ ہو..

    مسلم تاریخ کی ایک بہت مشہور شخصیت ابن شہاب زہری (58 ~ 124ھ)
    مورخ اور محدث کے نام سے مشہور مغربی مستشرقین کا لاڈ لہ ہے۔ زہری جعلی روایتوں ( تاریخ اور احادیث) کا سپر ڈوپر ماسٹر کاریگر ہے، اس نے وحی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں سینکڑوں کہانیاں گھڑ لیں۔

    وہ شامی ہے لیکن زہری نام کی وجہ سے انہیں مدنی سمجھا جاتا ہے حالانکہ وہ زہری نہیں ہے لیکن ان کے دادا نے بنو زہرہ کے ایک مبلغ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا تھا اور جو شخص بنو زہرہ کے ہاتھوں مسلمان ہوا انہیں عزت کے ساتھ زہری کہا جاتا تھا۔

    بنو زہرہ قبیلہ قریش کا ایک چھوٹا قبیلہ ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ، بی بی آمنہ بنت وہب کا تعلق بنو زہرہ سے ہے. سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی بنو زہرہ سے ہیں۔

    زہری کی داستان.. اگلی قسط کا انتظار کریں۔…..

Average Rating

5.00

1 Review
5 Star
100%
4 Star
0%
3 Star
0%
2 Star
0%
1 Star
0%
Add a review

Your email address will not be published. Required fields are marked *