Gehriyaan Shaamaan PDF گہریاں شاماں راجہ ولایت اظہر
Pothwari Poet Raja Walayat Hussain Azhar
Free Download
Free Download
Categories: | Other Books, poetry, Punjabi Books, punjabi poetry |
---|
BOOK NAME | Gehriyaan Shaamaan |
---|---|
BOOK AUTHOR |
پوٹھواری ادب، پوٹھواری بحرچار مصرعہ کے عظیم شاعر سائیں احمد علی ایرانی ایک عظیم شاعر تھے ۔پوتھواری ادب میں آپ کا ایک خاص مقام و مرتبہ ہے ۔سائیں احمد علی کو منط عام پر لانے والے اکرم گجر، صدیق شعر خوان ،ماسٹر یسن، راجہ عابد اور دیگر پوٹھوار کے شعر خوان حضرات ہیں سائیں احمد علی ایرانی نے پوٹھواری علم و ادب کو وہ مرتبہ بخشا کہ آپ کے کلام کی گونج پوٹھوارسے نکل کر ہندکو ادب ،ڈھیٹ پنجابی پر بھی اسکے اثرات مرتب ہو ئے ۔ سائیں احمد علی ایرانی پر ہندکو ادب والوں نے خامہ فرسائی کی ہے اور سائیں کا عوامی تعارف اور خواص سے نکال کر عوامی شاعر بنانے والے پوٹھوار کے شعر خواں حضرات ہیں حقیقت یہ ہے کہ پوٹھوار کے شعر خواں حضرات نے جن شعراء کا کلام زیادہ پیش کیا ان میں ایک سائیں احمد علی ایرانی ہیں۔ سائیں احمد علی ایرانی کو سر آنکھوں پر بٹھانے والے اور سائیں کا پرچار کرنے والے اہل پوٹھوار ہی ہیں۔
۔…………….. سِٹھنیاں
فیصل عرفان کی تیسری کتاب “ہوشے” میں ان گیتوں کو جمع کیا گیا ہے جو ہمارے خطہ میں شادی بیاہ کی رسومات پر دلھا اور دلھن کے گھروں میں گائے جاتے تھے اور گائے جاتے ہیں۔ یہ گیت ادب کے اعلیٰ نمونے نہیں بلکہ سادگی، ہم دلی، خوشی، زندہ دلی اور کہیں کہیں دل لگی(چھیڑ چھاڑ) پر مشتمل ہیں۔ یہ لوک گیت حسبِ ضرورت و “حسبِ ذائقہ” ایجاد اور ترمیم کر لیے جاتے، ان کی شعری ہیئیت نہیں بلکہ سرشاری کی کیفیت اہم ہے۔
فیصل سے ملاقات زیادہ نہیں رہی ہے ان کی ادا میں انسان دوستی، ملن ساری اور ہم دلی ملتی ہے۔ فن کار برا انسان بھی ہو سکتا ہے، لیکن تب بھی اس کا فن دیکھا چاہیے۔ اس حالت میں ہم کہتے ہیں فن کار، قلم کار یا کاری گر تو عظیم ہے لیکن انسان اچھا نہیں ہے۔ اچھا انسان ممکن ہے اچھا فن کار نہ ہو لیکن برا انسان اور برا فن کار تو طبع کو نا گوار لگتا ہی ہے، اس کتاب کے بیان میں ایسا کچھ ارادتا یا ضرورتا نہیں ضمنا لکھا گیا ہے۔ فیصل چونکہ اچھے انسان بھی ہیں سو ایسوں کی تعظیم و توقیر کرنے میں بخل نہیں کیا۔
فیصل کی ایک کتاب ‘پرجہھات مہھاڑی انھی” پر تبصرہ نہیں کِیا.( فیصل کو میرے تبصرے کی حاجت بھی نہیں ہے) پہیلیوں کی اس کتاب میں بعض پہیلیاں ایسی تھیں جن میں بول و براز کا بھی ذکر تھا۔ ایک “نفیس” دوست نے اس پر بات بھی مجھ سے کی ۔ ادب میں ایسی کراہت آمیز باتیں بہت سوں کے لیے بہت سی وجوہ پر مبنی ہوتی ہیں، میں اپنا تہذیبی/ ثقافتی اثاثہ مرتب کرتا تو کیا میں ان “گونہہ موتر” پہیلیوں کو چھوڑ کر اچھی اچھی پہیلیاں جمع کرتا؟ کیا میں بچوں کے لیے ایسی قطع و برید حق پر سمجھتا کہ بچوں تک ہمارے عہد کی ہر اچھی شے پہنچے اور (میرے لیے) کریہہ اشیاء کو نکال باہر کیا جائے؟ میں نے اس پر بہت سوچا ہے اس پر ذہن الجھا ہے۔پھر یہ سمجھا ہے کہ مقبول عام جو کچھ بھی ہو اس پر ہم اپنی فکر و نظر کے مطابق تو تنقید کر سکتے ہیں لیکن معاشرے کے “ادب” کو معاشرہ قبول کر لے تو ہمیں اس پر حکم عائد نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں پسند نہیں، ہم نہ کریں۔
اس موجودہ کتاب میں سٹھنیوں کی ایک صنف چار صفحات کو گھیرے ہوئے ہے.اس صنف میں عموماً لڑکے کی ماں دادی پھوپھی تائی چاچی بھائی خالہ وغیرہ یعنی خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس میں ان کے مردوں پر بھی ہنسی اڑائی جاتی پے۔ مجھے ان پہِیلیوں کی طرح ان سٹھنیوں سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن یہ فیصل کو داد دینا پڑتی ہے کہ انھوں نے ہماری ثقافت کے ہر جزء کو پوری ایمان داری سے مجموعے کی صورت میں پیش کر دیا۔ فیصل کو مہینوں برسوں اس کاوش میں لگے ہیں، شاید__ شاید ہی کوئی جزء ان کی متلاشی، متمنی اور متجسس نگاہوں سے بچ سکا ہو۔ ایک مولف و مورخ کا یہی کام ہے کہ بلا کم و کاست معاشرتی رسومات، ادب و اخلاق کا حال بیان کر دے، مورخ اخلاق کا مبلغ نہیں ہوتا کہ اپنی فہم کے ترازو پر اچھی بری کا فرق کر کے معاشرے کو “سب اچھا” کی رپورٹ پیش کرے۔
تاریخ اور ہماری اختلافِ رائے بتاتی ہے کہ معاشرے میں سب اچھا نہیں ہوتا۔ تہذیب کا مطلب ہی بہتر کی تلاش اور بد تر کی تراش ہے۔ اس کو دوسرے رخ سے بھی دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اچھائی برائی ہر عہد، ہر علاقے اور ہر سماجی (اور انفرادی)ضمیر کے مطابق ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ کچھ بھی اچھا برا ہماری علمی سطح کے مطابق ہوتا ہے۔ سٹھنیوں میں ۔۔۔۔۔ لیکن پہلے ہم سٹھنیوں کی ایک آدھ مثال دیکھیں تو پھر اس پر اظہار رائے بہتر سمجھ میں آئے گا۔ ایک سٹھنی ملاحظہ ہو :
دو ام پکے، دو نار__کالیاں باغاں نیں
“فلانی” کڑی نے یار
دو تھندار_دو ولدار
دو سپاہی_ دو مہھاڑے پہائی
سارا محلہ کیتا ای برباد___تیرہ تالنڑیئیں۔
“فلانی” ایک نام کی جگہ میں نے ارادتاً لکھا ہے۔ ضرورتاً یہ نام ایک دوسرے سے “دل لگی” کی بنا پر بدل لیا جاتا ہے۔
ہماری روایتی شادی ارینجڈ میرج ہوتی تھی،اب بھی ہوتی ہے۔ اس میں تمام خاندان خوش اور راضی ہوتا تو ہی یہ شادی ممکن ہو پاتی، ہاں دلھا اور خصوصاً دلھن کی اپنی رضا والدین خصوصاً والد کی رضا ہوتی تھی(ہے)/ شادی دو انسانوں کے ملاپ کا نہیں دو خاندانوں اور بستیوں کے ملاپ کا معاملہ تھا۔اس میں پورا گاوں سسرال میں شمار ہوتا حتیٰ کہ شادی کی دوستیاں (دولھے کے دوست اور دولھن کی سہیلیاں) خاندان کا حصہ شمار کی جاتی تھیں۔ شادی کی تمام رسومات میں شریک ہر چھوٹا بڑا خوش ہوتا، اس خوشی کا اظہار رات کے پہلے حصے میں پرات۔ترامی، گھڑا، ڈھولکی کے بجنے اور عورتوں بچیوں کے گیتوں سے ہوتا تھا۔ عموماً شادی شدہ اور بڑی بوڑھیاں ان گیتوں کو خصوصاً سٹھنیوں کو گاتِیں، کہیں کہیں، بہت کم پیشہ ور گانے والا بابا بھی ڈھولکی بجاتا ان عورتوں کے ساتھ گاتا تھا۔
یہ سٹھنیاں باہم رضا مندی سے دی اور لی جاتی تھیں۔ یہ بے تکلف دوستوں جیسی چھیڑ چھاڑ تھی، کسی کو خصم کرا دینا یا کسی کا خصم رِچھ بنا دینا سنجیدہ معاملہ نہیں تھا۔ یعنی اجازت ہو تو کہوں کہ یہ توہین بلا ارادہ اور ہتک بالرضا تھی۔ ہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض کے لیے بالرضا والا معاملہ بھی گناہ میں شمار ہوتا ہے۔
ذاتی طور پر تمام ثقافت سے عقیدت ہے نہ نفرت۔ اپنی شادی پر ایسی کوئی رسم گھڑولی، مہندی وغیرہ نہیں ہوئی لیکن جب ارد گرد لوگ ان رسومات میں خوش ہوتے ہیں جو بے ضرر ہوں تو ان کی خوشی میں خوشی ہوتی ہے اور جب یہ رسومات ہم دلی اور دوستی میں اضافہ اور برکت لائیں تو خوشی دگنی تگنی ہو جاتی ہے، کہیں کوئی ہوشے کہے تو کورس میں شامل ہونا اچھا لگتا ہے، تاہم سٹھنیوں والا ادب میں بچوں کو سکھا نہیں سکتا، لیکن میں نے دونوں رخوں سے اس کو دیکھنے کی بھرپور کوشش ضرور کی ہے جیسا کہ درج بالا پیرے گواہ ہیں۔
ثقافت کو زندہ رکھنے والے بہت لوگ موجود ہیں، میں گرچہ ثقافت کو خوب، بد اور فضول کی تقسیم میں رکھ کر دیکھتا ہوں، اس لیے ثقافتی بقا و احیاء میں اپنا کوئی حصہ نہیں ہے۔ لیکن عوام و خواص کا حق ہے کہ وہ ثقافت کو زندہ رکھیں، اس میں کمی بیشی کریں۔ ثقافتی اقدار اور رسومات کو جمع کرنے والوں کے دو مقاصد ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ان تمام رسومات و آداب کو زندہ رکھا جائے اور اپنی نئی نسل کو ان پر عمل کے لیے تیار کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ ان کو محفوظ رکھا جائے تا کہ بعد میں آنے والے ان نشانات کو دیکھ کر سمجھ سکیں کہ انسان کا ذہنی, نفسیاتی، اخلاقی اور تہذیبی ارتقاء کس قدر ہوا یا نہیں ہوا ہے۔ میں دوسرے مقصد کی نظر سے اسے تکتا ہوں۔
اس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں. احمد کھیل رہا ہے اور اس کی آواز دور تلک جا رہی ہے۔ “کوئی ساوا چِیلا داجے ناں۔۔۔۔۔۔۔ ہوشے”۔ دو ہفتے ہوئے اس کے ذہن سے ہوشے نہیں نکلا۔یہ دیکھ کر یہ کہنا بجا ہے کہ ان سادہ گیتوں میں بہر حال یہ کشش ہے کہ سادگی ان کی طرف کھچی چلی آتی ہے۔ فیصل کی کتاب کے دوسرے پہلووں پر آئندہ کبھی بات ہو گی۔ ثقافت اور تہذیب, ہر دو کے طرف دار احباب کے لیے ان کی بھرپور کاوشیں مفید ہیں۔ان کی آمدہ کتاب (لوریوں پر مشتمل کتاب) اور بہت سی دوسری کتابوں کے لیے بہت نیک تمنائیں اور دعائیں ہیں۔
(🖋___ارشد انجم)
Toobaa Foundition
The purpose of the Toobaa Foundition is to serve the scholars, especially those specializing in MPhil, PhD, or any other field. The foundation assists them in their pursuit of knowledge. To achieve this goal, Toobaa Foundition has a program to digitize all libraries across the country, whether private or public. The primary objective is to search for libraries, compile lists, and introduce the available books. The foundation also conducts scanning of rare manuscripts and scans books that require digitization, presenting them in PDF and Kindle formats.
Appeal
We urge you to collaborate with Toobaa Foundition for the completion of this noble mission. To contribute, search for libraries at your locality, district, and tehsil levels, and contact the librarians and organizers. Special cooperation is sought for scanning books. You can help us by scanning books yourself or getting them scanned. Send us the list of books available in your library, along with their titles.
Assist us in creating PDF or Kindle formats for books. Toobaa Foundation sometimes offers books for purchase to fund this mission mentioned above. As there are considerable expenses on this website, we kindly request you to prioritize Toobaa Shop for book purchases. Buy the books presented on the website for your needs.
If you need any book from the recommended books on the Toobaa Foundition website in PDF format, you can obtain it by contributing to the scanning costs.
The annual expenses of this website are low (50000). These include costs for approximately thirty thousand domains and hosting. Maintenance and other expenses are also part of it. By participating in this good cause, you can create an ongoing charity for yourself.
You should visit this website if you will get books here absolutely free and you can buy the book at a low price from Amazon.We are updating it day by day you can also join our whatsapp group and other links.
Link For Order
https://bit.ly/3SH5RvR
WhatsApp Grup Link
https://bit.ly/3S4CiCO
Knoozedil Library Link
https://bit.ly/4279KgB
Toobaa-E-Library
https://bit.ly/3u7PrD9
Plz Click On Link
محمد اشفاق
ماشاءاللہ
بہت خوب جناب
قابل داد