احوال و افکار سائیں احمد علی پشاوری تالیف احمد پراچہ
Ahval O Afkar:Sain Ahmad Ali Peshawari PDF
گفتنی و نا گفتنی :احمد پراچہ
سائیں احمد علی پشاوری اردو ہند کو اور پنجابی تینوں زبانوں پر عبور رکھتے تھے ان کا تعلق تیسرے دور (1880 عیسوی کے شعراء سے تھا اور انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ تیسرے دور کے کاروان سالار تھے، یہ کاروان سالار 1880 ء میں تن تنہا اردو کا پرچم لہراتا ہوا اٹھا۔ ان کے شعور کی پختگی اور ان کی عظمت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے انفرادی سرگرمیوں کو اجتماعی رنگ میں ڈھال کر زبان و ادب کی نمایاں خدمات سر انجام دیں۔ سائیں احمد علی پشاوری کی زندگی شخصیت اور فن کے حوالے سے کتاب حاضر ہے ۔ خداوندتعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے زبان کو یارا اور قلم میں سکت نہیں، جس کام کا میں نے کئی برس پہلے ارادہ کیا تھا۔ آج رب تعالیٰ نے مجھ ناچیز کے ہاتھوں اسے پایہ تکمیل کو پہنچایا اور میں اپنے پڑھنے والوں کےسامنے سرخرو ہوا۔
تا ہم گفتنی و نا گفتنی کی اجازت چاہوں گا ، یہ کتاب میری کئی برسوں کی تحقیق و جستجو کا نتیجہ ہے۔ شعوری طور پر میری یہ کوشش رہی ہے کہ شاخ تحقیق پر تخلیق پرتخلیقی تنقید کا پوند لگا سکوں، کتاب آپ کے سامنے ہے ، اسے پڑھ کر خود ہی اس کے بارے میں اپنی رائے قائم کر لیجیئے کہ مجھے یہاں تککامیابی ہوئی ہے یا کہاں ٹھو کر کھائی ہے۔ اس بارے میں کسی کا اظہار آپ ہی کیلئے مناسب ہے۔ اس کتاب کو پہلے چھپ کر بازار میں آ جانا چاہیے تھا مگر کچھ وجوہ آڑے رہیں ۔ جو کتاب کی اشاعت میں تاخیر کا باعث بنتی رہیں، لیکن میں بد دل اور مایوس نہیں ہوا بلکہ کتاب کی طباعت کے لئے جدو جہد برابر جاری رکھی ، جب میں نے ادب اور ادیب دوست غلام السیدین قریشی پبلشرز یک سنٹر سے رابطہ کیا اور زیر نظر کتاب کا غیر مطبوعہ مسودہ انہیں دکھائے تو انہوں نے اسےچھپوانے کی حامی بھر لی۔
انہوں نے اس سے قبل بھی میری لکھی ہوئی کتاب تاریخ کو ہاٹ چھائی تھی۔ عہد موجود میں ہماری نئی نسل ادب، ثقافت، تاریخ، کتاب ، مطالعے حتی کہ سنجیدہ ماحول سے دور ہوتی جا رہی ہے جو کہ ہم سب کے لئے ایک المیہ ہے، یہ دور ٹیلی ویژن ، کمپیوٹر فلم اور کھلاڑیوں کا دور ہے، ہمارے یہاں حکومتی سطح پر اور مختلف پرائیویٹ اداروں اور کاروباری کمپنیوں کی طرف سے جتنی پذیرائی اداکاروں ، کھلاڑیوں اور گانے بجانے والوں کی ہو رہی ہے اس کا عشر عشیر دھیان بھی ادب اور ادب کی طرف نہیں دیا جاتا بلکہ ادب اور ادیب سے تجابک عارفانہ برتاؤ برتا جاتا ہے ، اس دور ناقدری میں غلام السیدین قریشی جیسے مرد قلندر کا وجود بہت غنیمت ہے کہ موصوف ادب اور ادیب کی قدر کرتے ہوئےان کی کتابوں کی طباعت کا اہتمام کرتے ہیں۔
زیر نظر کتاب سائیں احمد علی پشاوری کی طباعت میں بھی غلام السیدین قریشی کا گہرا ہاتھ ہے یہاں کھلے دل سے اعتراف نہ کروں تو انتہائی ناسپاسی ہوگی کہ اس کتاب کی اشاعت میں اکادمی ادبیات پاکستان کا تعاون بھی شامل ہے لہذا میں محترم غلام السیدین قریشی پبلشرز بک سنٹر اور اکادمی ادبیات پاکستان کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں ۔ خصوصا غلام السیدین قریشی اس کی اشاعت میں دلچسپی نہ لیتے تو یہ کتاب اب بھی طبع نہ ہوتی۔
Be the first to review “Ahval O Afkar:Sain Ahmad Ali Peshawari PDF احوال و افکار سائیں احمد علی ایرانی”