Gehriyaan Shaamaan PDF گہریاں شاماں راجہ ولایت اظہر
Pothwari Poet Raja Walayat Hussain Azhar
Free Download
Free Download
Categories: | Other Books, poetry, Punjabi Books, punjabi poetry |
---|
BOOK NAME | Gehriyaan Shaamaan |
---|---|
BOOK AUTHOR |
طوبیٰ فاونڈیشن
طوبیٰ فاؤنڈیشن کا مقصد اہل علم کی خدمت کرنا ہے اور ایسے طالب علم جو ایم فل پی ایچ ڈی یا کسی شعبہ جات میں سپیشلائزیشن کر رہے۔ان کی مدد کرنا ہے۔اس مقصد کے لئے طوبی فاؤنڈیشن نے ملک بھر کی تمام لائبریریز خواہ ذاتی ہوں یا نجعی ہوں انکو ڈیجیٹل کرنے کا پروگرام رکھتی ہے۔سب سے پہلا مقصد لائبریریوں کا کھوج لگانا،ان میں موجود کتب کی فہرست اور تعارف پیش کرنا ہے اور نایاب مخطوطات کی سکینینگ،اور ایسی کتب جن کو سکین کرنے کی ضرورت ہے انکو سکین کر کے انکو پی ڈی ایف اور کنڈل فارمیٹ میں پیش کرنا ہے۔
اپیل
آپ سے ہماری گزارش ہے کہ اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لئے آپ طوبی فاؤنڈیشن سے خصوصی تعاون فرمائیں اس مقصد کے لئے آپ اپنے ارد گرد،تحصیل و ضلع لیول پر موجود لائبریریز کا کھوج لگائیں اور لائبریرین ،منتظمین حضرات سے ہمارا رابطہ کروائیں۔
کتابوں کی سکیننگ کے لئے خصوصی تعاون کیا جائے یہ تعاون آپ ہمارے ساتھ کسی بھی ممکنہ صورت میں کر سکتے ہیں
آپ ہمیں کتابیں سکین کر کے دے سکتے ہیں یا سکین کروا کر دے سکتے ہیں۔
آپ اپنی لائبریری میں موجود کتب کی فہرست بنا کر بھیج دے۔ اپنی لائبریری میں موجود کتب کے ٹائٹل بھیجیں۔
کتابوں کی پی ڈی ایف یاکنڈل فارمیٹ بنانے میں ہماری مدد کریں ۔
طوبی فاؤنڈیشن پر بعض کتب خریداری کے لئے پیش کی جاتی ہیں اس کا مقصد اس مشن کی تکمیل( جو اوپر ہم بیان کر چکے ہیں )ہےاس ویب سائیٹ پر کافی زیادہ اخراجات بھی ہیں اس لئے آپ سے التماس ہے کہ آپ کتب کی خریداری کے لئے بھی طوبی شاپ کو ترجیح دے۔ اور ویب سائیٹ پر جو کتب خریداری کے لئے پیش کی گئی ہیں آپ طوبی شاپ ہی سے خریدیں۔
نیز آپکو طوبی فاؤنڈیشن کی پیش کردہ کتابوں کوئی بھی کتاب پی ڈی ایف میں چاہئے تو آپ سکینیگ کے اخراجات دے کر پی ڈی ایف حاصل کر سکتے ہیں۔
اس ویب سائیٹ میں ڈومین اور ہوسٹنگ کے علاوہ مٹینیس اور دیگراخراجات پلگ ان وغیرہ کے اخراجات کے لئے بھی اچھے خاصے اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے ۔ آپ اس نیک کام
میں حصہ لیکر اپنے لئے صدقہ جاریہ بنا سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ وٹس ایپ پر مجھے سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
۔…………….. سِٹھنیاں
فیصل عرفان کی تیسری کتاب “ہوشے” میں ان گیتوں کو جمع کیا گیا ہے جو ہمارے خطہ میں شادی بیاہ کی رسومات پر دلھا اور دلھن کے گھروں میں گائے جاتے تھے اور گائے جاتے ہیں۔ یہ گیت ادب کے اعلیٰ نمونے نہیں بلکہ سادگی، ہم دلی، خوشی، زندہ دلی اور کہیں کہیں دل لگی(چھیڑ چھاڑ) پر مشتمل ہیں۔ یہ لوک گیت حسبِ ضرورت و “حسبِ ذائقہ” ایجاد اور ترمیم کر لیے جاتے، ان کی شعری ہیئیت نہیں بلکہ سرشاری کی کیفیت اہم ہے۔
فیصل سے ملاقات زیادہ نہیں رہی ہے ان کی ادا میں انسان دوستی، ملن ساری اور ہم دلی ملتی ہے۔ فن کار برا انسان بھی ہو سکتا ہے، لیکن تب بھی اس کا فن دیکھا چاہیے۔ اس حالت میں ہم کہتے ہیں فن کار، قلم کار یا کاری گر تو عظیم ہے لیکن انسان اچھا نہیں ہے۔ اچھا انسان ممکن ہے اچھا فن کار نہ ہو لیکن برا انسان اور برا فن کار تو طبع کو نا گوار لگتا ہی ہے، اس کتاب کے بیان میں ایسا کچھ ارادتا یا ضرورتا نہیں ضمنا لکھا گیا ہے۔ فیصل چونکہ اچھے انسان بھی ہیں سو ایسوں کی تعظیم و توقیر کرنے میں بخل نہیں کیا۔
فیصل کی ایک کتاب ‘پرجہھات مہھاڑی انھی” پر تبصرہ نہیں کِیا.( فیصل کو میرے تبصرے کی حاجت بھی نہیں ہے) پہیلیوں کی اس کتاب میں بعض پہیلیاں ایسی تھیں جن میں بول و براز کا بھی ذکر تھا۔ ایک “نفیس” دوست نے اس پر بات بھی مجھ سے کی ۔ ادب میں ایسی کراہت آمیز باتیں بہت سوں کے لیے بہت سی وجوہ پر مبنی ہوتی ہیں، میں اپنا تہذیبی/ ثقافتی اثاثہ مرتب کرتا تو کیا میں ان “گونہہ موتر” پہیلیوں کو چھوڑ کر اچھی اچھی پہیلیاں جمع کرتا؟ کیا میں بچوں کے لیے ایسی قطع و برید حق پر سمجھتا کہ بچوں تک ہمارے عہد کی ہر اچھی شے پہنچے اور (میرے لیے) کریہہ اشیاء کو نکال باہر کیا جائے؟ میں نے اس پر بہت سوچا ہے اس پر ذہن الجھا ہے۔پھر یہ سمجھا ہے کہ مقبول عام جو کچھ بھی ہو اس پر ہم اپنی فکر و نظر کے مطابق تو تنقید کر سکتے ہیں لیکن معاشرے کے “ادب” کو معاشرہ قبول کر لے تو ہمیں اس پر حکم عائد نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں پسند نہیں، ہم نہ کریں۔
اس موجودہ کتاب میں سٹھنیوں کی ایک صنف چار صفحات کو گھیرے ہوئے ہے.اس صنف میں عموماً لڑکے کی ماں دادی پھوپھی تائی چاچی بھائی خالہ وغیرہ یعنی خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس میں ان کے مردوں پر بھی ہنسی اڑائی جاتی پے۔ مجھے ان پہِیلیوں کی طرح ان سٹھنیوں سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن یہ فیصل کو داد دینا پڑتی ہے کہ انھوں نے ہماری ثقافت کے ہر جزء کو پوری ایمان داری سے مجموعے کی صورت میں پیش کر دیا۔ فیصل کو مہینوں برسوں اس کاوش میں لگے ہیں، شاید__ شاید ہی کوئی جزء ان کی متلاشی، متمنی اور متجسس نگاہوں سے بچ سکا ہو۔ ایک مولف و مورخ کا یہی کام ہے کہ بلا کم و کاست معاشرتی رسومات، ادب و اخلاق کا حال بیان کر دے، مورخ اخلاق کا مبلغ نہیں ہوتا کہ اپنی فہم کے ترازو پر اچھی بری کا فرق کر کے معاشرے کو “سب اچھا” کی رپورٹ پیش کرے۔
تاریخ اور ہماری اختلافِ رائے بتاتی ہے کہ معاشرے میں سب اچھا نہیں ہوتا۔ تہذیب کا مطلب ہی بہتر کی تلاش اور بد تر کی تراش ہے۔ اس کو دوسرے رخ سے بھی دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اچھائی برائی ہر عہد، ہر علاقے اور ہر سماجی (اور انفرادی)ضمیر کے مطابق ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ کچھ بھی اچھا برا ہماری علمی سطح کے مطابق ہوتا ہے۔ سٹھنیوں میں ۔۔۔۔۔ لیکن پہلے ہم سٹھنیوں کی ایک آدھ مثال دیکھیں تو پھر اس پر اظہار رائے بہتر سمجھ میں آئے گا۔ ایک سٹھنی ملاحظہ ہو :
دو ام پکے، دو نار__کالیاں باغاں نیں
“فلانی” کڑی نے یار
دو تھندار_دو ولدار
دو سپاہی_ دو مہھاڑے پہائی
سارا محلہ کیتا ای برباد___تیرہ تالنڑیئیں۔
“فلانی” ایک نام کی جگہ میں نے ارادتاً لکھا ہے۔ ضرورتاً یہ نام ایک دوسرے سے “دل لگی” کی بنا پر بدل لیا جاتا ہے۔
ہماری روایتی شادی ارینجڈ میرج ہوتی تھی،اب بھی ہوتی ہے۔ اس میں تمام خاندان خوش اور راضی ہوتا تو ہی یہ شادی ممکن ہو پاتی، ہاں دلھا اور خصوصاً دلھن کی اپنی رضا والدین خصوصاً والد کی رضا ہوتی تھی(ہے)/ شادی دو انسانوں کے ملاپ کا نہیں دو خاندانوں اور بستیوں کے ملاپ کا معاملہ تھا۔اس میں پورا گاوں سسرال میں شمار ہوتا حتیٰ کہ شادی کی دوستیاں (دولھے کے دوست اور دولھن کی سہیلیاں) خاندان کا حصہ شمار کی جاتی تھیں۔ شادی کی تمام رسومات میں شریک ہر چھوٹا بڑا خوش ہوتا، اس خوشی کا اظہار رات کے پہلے حصے میں پرات۔ترامی، گھڑا، ڈھولکی کے بجنے اور عورتوں بچیوں کے گیتوں سے ہوتا تھا۔ عموماً شادی شدہ اور بڑی بوڑھیاں ان گیتوں کو خصوصاً سٹھنیوں کو گاتِیں، کہیں کہیں، بہت کم پیشہ ور گانے والا بابا بھی ڈھولکی بجاتا ان عورتوں کے ساتھ گاتا تھا۔
یہ سٹھنیاں باہم رضا مندی سے دی اور لی جاتی تھیں۔ یہ بے تکلف دوستوں جیسی چھیڑ چھاڑ تھی، کسی کو خصم کرا دینا یا کسی کا خصم رِچھ بنا دینا سنجیدہ معاملہ نہیں تھا۔ یعنی اجازت ہو تو کہوں کہ یہ توہین بلا ارادہ اور ہتک بالرضا تھی۔ ہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض کے لیے بالرضا والا معاملہ بھی گناہ میں شمار ہوتا ہے۔
ذاتی طور پر تمام ثقافت سے عقیدت ہے نہ نفرت۔ اپنی شادی پر ایسی کوئی رسم گھڑولی، مہندی وغیرہ نہیں ہوئی لیکن جب ارد گرد لوگ ان رسومات میں خوش ہوتے ہیں جو بے ضرر ہوں تو ان کی خوشی میں خوشی ہوتی ہے اور جب یہ رسومات ہم دلی اور دوستی میں اضافہ اور برکت لائیں تو خوشی دگنی تگنی ہو جاتی ہے، کہیں کوئی ہوشے کہے تو کورس میں شامل ہونا اچھا لگتا ہے، تاہم سٹھنیوں والا ادب میں بچوں کو سکھا نہیں سکتا، لیکن میں نے دونوں رخوں سے اس کو دیکھنے کی بھرپور کوشش ضرور کی ہے جیسا کہ درج بالا پیرے گواہ ہیں۔
ثقافت کو زندہ رکھنے والے بہت لوگ موجود ہیں، میں گرچہ ثقافت کو خوب، بد اور فضول کی تقسیم میں رکھ کر دیکھتا ہوں، اس لیے ثقافتی بقا و احیاء میں اپنا کوئی حصہ نہیں ہے۔ لیکن عوام و خواص کا حق ہے کہ وہ ثقافت کو زندہ رکھیں، اس میں کمی بیشی کریں۔ ثقافتی اقدار اور رسومات کو جمع کرنے والوں کے دو مقاصد ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ان تمام رسومات و آداب کو زندہ رکھا جائے اور اپنی نئی نسل کو ان پر عمل کے لیے تیار کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ ان کو محفوظ رکھا جائے تا کہ بعد میں آنے والے ان نشانات کو دیکھ کر سمجھ سکیں کہ انسان کا ذہنی, نفسیاتی، اخلاقی اور تہذیبی ارتقاء کس قدر ہوا یا نہیں ہوا ہے۔ میں دوسرے مقصد کی نظر سے اسے تکتا ہوں۔
اس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں. احمد کھیل رہا ہے اور اس کی آواز دور تلک جا رہی ہے۔ “کوئی ساوا چِیلا داجے ناں۔۔۔۔۔۔۔ ہوشے”۔ دو ہفتے ہوئے اس کے ذہن سے ہوشے نہیں نکلا۔یہ دیکھ کر یہ کہنا بجا ہے کہ ان سادہ گیتوں میں بہر حال یہ کشش ہے کہ سادگی ان کی طرف کھچی چلی آتی ہے۔ فیصل کی کتاب کے دوسرے پہلووں پر آئندہ کبھی بات ہو گی۔ ثقافت اور تہذیب, ہر دو کے طرف دار احباب کے لیے ان کی بھرپور کاوشیں مفید ہیں۔ان کی آمدہ کتاب (لوریوں پر مشتمل کتاب) اور بہت سی دوسری کتابوں کے لیے بہت نیک تمنائیں اور دعائیں ہیں۔
(🖋___ارشد انجم)
مڈھلی گل
پنجابی زبان دا ڈھیر سارا سرمایہ کھلریا ہویا اے۔ اوس نوں سانبھن تے سودھن واسطے حالی تیک کوئی خاص پیر نہیں پٹیا گیا۔ ایہو کارن اے کہ اسمیں بہت سارے ادب توں محروم ہندے جا رہے آں، کیوں جو ہر پنڈ تھینہ ، جھوک اتے نگر ساڈیاں اجیہیاں امانتاں نوں سانبھی آرہیا سی پر ویلے دے وا و رولیاں تے جھگڑاں نے ایمہ
دولت مٹی وچ رول دتی اے۔ کہندا سائیں جیسی دولت نوں سانبھن دی اک کامیاب کوشش اے۔ ایہ کھیل پنجابی زبان دے بہوں وڈے سیوک، شاعر تے لکھیار پوٹھوہار دے میتر افضل
پرویز ہوراں کیتی اے۔
احمد علی سائیں پشاوری ساڈی بزرگ نسل دی آخری کڑی من، جیہناں دے کلام نوں اجے تیک سانبھن آتے سودھن ول گوہ نہیں کیتا گیا سی۔ بورڈ دی خواہش اتے افضل پرویز ہوراں سائیں پشاوری دے چاہواناں تے اوہناں دے شاگرداں گائیکاں اتے دوجے متعلقاں لوکاں توں بڑی محنت نال اوہناں دا کلام سن کے لکھیا
سودھیا تے اوس نوں کتابی روپ دتا۔ ایس دے نال ای اوہناں سائیں دے شاگرداں دی اک فہرست بڑی بھال
مگروں اکٹھی کر کے اوہناں دے ملدے حالات وی لکھ دتے ہیں، جیہدے توں پوٹھوہار دے سائیں سکول دے سارے ای شاعراں توں جانکاری مل ویسی۔
پنجابی دے . کھلے موتیاں نوں سانبھن دی ایہ پہلی کوشش اے جیڑی کہ
اگے پیر ٹن وچ یقیناً” مددگار ہوئی۔
پاکستان پنجابی ادبی بورڈ لاہور
محمد اشفاق
ماشاءاللہ
بہت خوب جناب
قابل داد