-
ASAAN TARJUMA QURAAN , URDU MUTARJIM: MAULANA MUHAMMAD FAROOQ KHA’N
آسان ترجمہ قرآن
اردو مترجم : مولانا محمدفاروق خاں
(برائے تحقیق ومطالعہ طلبائے قرآنیات)
ASAAN TARJUMA QURAAN
URDU MUTARJIM: MAULANA MUHAMMAD FAROOQ KHA’N
(FOR RESEARCH PURPOSES OF STUDENTS OF QURANIC STUDIES)
-
MAULANA ASHRAF ALI THANVI K MUNTAKHIB KHUTBAAT ME TAFSEERI NUKAAT KA TAHQEEQI O TAJZIYATI MUTALA
مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے منتخب خطبات میں تفسیری نکات کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ ( جلد 1 تا 2)
(مقالہ برائے ایم فل )
مقالہ نگار: جمیل عالم اعوان
MAULANA ASHRAF ALI THANVI K MUNTAKHIB KHUTBAAT ME TAFSEERI NUKAAT KA TAHQEEQI O TAJZIYATI MUTALA
M PHIL THESIS
RESEARCH BY: JAMEEL ALAM AWAN
٭ ملاحظہ کیجئے مضمون ٭
٭ تفسیر بیان القرآن مولانا از:مولانا اشرف علی تھانوی ” رائے ” اور ” آثار ” کا امتزاج٭
مضمون نگار : ڈاکٹر محمد زوہیب حنیف
٭ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی قرآنی و علمی خدمات پر کتب کے لیئے کلک کیجیئے ٭
-
QURAN AUR HIDAYAT E QURAN KI JHALAK
قرآن اور ہدایاتِ قرآن ایک جھلک
از: مفتی زید بن عبدالرحمٰن فلاحی پالن پوری
QURAN AUR HIDAYAT E QURAN KI JHALAK
BY: MUFTI ZAID BIN ABDURAHMAN
-
SOME RHETORICAL FEATURES OF THE QURAN
SOME RHETORICAL FEATURES OF THE QURAN
Author: Muhammad al-Ghazali
By: TOOBAA FOUNDATION
Some Rhetorical Features of The Quran:An Introduction to the Early Development of Ma‘ni———————————–مباحث کا مختصر تعارف—————————یہ ڈاکٹر محمد الغزالی کی کتاب ہے جو ادارہ تحقیقات اسلامی سے شائع ہوئی تھی اور قرآنِ کریم کے بلاغی اعجاز پر بحث کرتے ہوئے علمِ معانی کے باب میں مسلم علما کی ابتدائی دور کی کاوشوں کو نمایاں کرنے کے لیے قلم بند کی گئی ہے۔مصنف اس کی تالیف کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:What we have attempted to pursue here is simply to find an answer to the following question: ‘what features of the Qur’anic text were found by our classic scholars to be constitutive of its miraculous status?(ہماری کاوش اس سوال کا جواب دینا ہے کہ ہمارے قدیم علما نے نصِ قرآنی کے وہ کون سے پہلو دریافت کیے جو اس کی اعجازی شان کی بنیاد ہیں؟)کتاب کے پانچ ابواب اور ایک خاتمہ ہے جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:بابِ اول : قرآنِ کریم کے ادبی مطالعات کا ایک تعارفبابِ دوّم : بلاغت کا نظری نقشہبابِ سوّم : بلاغت کا کلاسیکی دور: چند بنیادی کاوشیںبابِ چہارم : علمِ معانی کے مخصوص اصولبابِ پنجم : بلاغی بحث کا ذروۂ سنامنتائجِ بحثپہلے باب میں قرآنِ کریم کے اعجاز کے حوالے سے عربی زبان وادب کے خزانۂ عامرہ میں مسلمانوں کے عظیم الشان حصے پر گفت گو کی گئی ہے اور عہدِ تدوین میں جو ذخیرہ وجود میں آیا، اس میں سے اہم کتابوں کا تعارف کروایا گیا ہے جو عربی زبان اور خاص طور پر قرآنی بلاغت کے باب میں اہم شمار ہوتی ہیں۔مصنف نے لکھا ہے کہ قرآنِ کریم کے اعجاز کا تصور صحابہ کرام میں موجود تھا ، لیکن بعد کے علما نے اس فن کو مربوط انداز میں بیان کیا ہے۔ اس فن کے نشو وارتقا کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’اعجاز‘ یا ’معجزہ‘ کے الفاظ شروع میں مستعمل نہ تھے، بلکہ دوسری یا تیسری صدی کے آغاز میں متکلمین کے ہاں نمایاں ہوئے۔قرآن اس مقصد کے لیے آیت کا لفظ بولتا ہے۔اعجازِ قرآن پر تصانیف کے سلسلے کا پہلا کام محمد بن یزید واسطی کا إعجاز القرآن کی شکل میں ہے۔ علمِ تفسیر کے ارتقا کے ساتھ اعجازِ قرآن کی بحثوں میں مزید پھیلاؤ پیدا ہوا۔ دوسری صدی میں قرآن کے ادبی اور لغوی پہلو پر زیادہ توجہ دی گئی اور چوتھی صدی اس تشکیلی دور کا ذروۂ سنام ہے۔اس دور میں مصنفین نے عربوں کے طے کردہ معیاراتِ شعر ونثر پر خصوصیت سے توجہ دی اور معانی، بیان اور بدیع کی اصطلاحات استعمال کی گئیں۔اس عہد کے مصنفین میں ابو ہلال عسکری، ابن سنان خفاجی، عبدالقاہر جرجانی، جاراللہ زمخشری، عبداللہ ابن المعتز، قدامہ بن جعفر اور ابنِ رشیق قیروانی ہیں۔ مصنف نے اس باب میں سَکَّاکی، جُرجانی، رُمّانی، باقِلّانی، جاحظ، رازی اور دیگر حضرات کے علمی کام کا ذکر کیا ہے۔تیسرے باب (بلاغت کا کلاسیکی دور: چند بنیادی کاوشیں) میں مصنف نے بالترتیب جرجانی، باقلانی، خطابی، رمانی، زَمَخْشَری، رازی اور سکّاکی پر گفت گو کی ہے۔اس گفت گو میں باقلانی کا ذکر خطابی سے پہلے آیا ہے، جب کہ وہ زمانی ترتیب کے لحاظ سے بعد میں ہیں اور سابق مصنفین کے کام سے استفادہ کرتے ہوئے انھوں نے اس بحث کو مزید آگے بڑھایا ہے۔اگرچہ مصنف نے لکھا ہے کہ :Though chronologically he [al-khattabi, d. 388 AH] is prior to al-Baqillani but in terms of impact and influence, the latter is more prominent. Hence he was mentioned first.(اگرچہ تاریخی ترتیب کے لحاظ سے وہ (خطابی ) باقلانی سے مقدم ہیں، لیکن اثرانگیزی کے اعتبار سے ثانی الذکر زیادہ معروف ہیں، اس لیے انھیں پہلے ذکر کیا گیا ہے۔)تاہم کتاب کے ذیلی عنوان (The Early Development of Maani) کے پیشِ نظر یہی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خطابی کا ذکر باقلانی سے پہلے آتا، کیوں کہ کسی چیز کا ارتقائی اور تدریجی مطالعہ تاریخی ترتیب سے کرنا زیادہ انسب ہے تاکہ یہ بات واضح ہو سکے کہ کس دور میں کسی خاص فکر کے کیا خدوخال رہے ہیں اور بعد والوں نے پہلے لوگوں کی تحقیق کو کن زاویوں سے آگے بڑھایا۔کتاب کا چوتھا اور پانچواں باب فنِ بلاغت کی تاریخ کے بیان کے بعد بلاغت کے مباحث سے متعلق ہیں۔ چوتھے باب (علمِ معانی کے مخصوص اصول) میں فصاحت وبلاغت کی تعریفات اور بلاغتِ کلمہ کے مفہوم کو واضح کیا گیا ہے، جب کہ پانچویں باب (بلاغی بحث کا ذروۂ سنام) میں علمِ معانی میں زیرِ بحث آنے والے جملہ امور ( اخبار وانشا، قِصَر، فصل و وصل، ایجاز، اطناب، مساوات) پر جامع گفت گو کی گئی ہے۔ ان مباحث کی وضاحت میں زیادہ تر مثالیں قرآنی نصوص سے اور کہیں کہیں عربی اشعار سے دی گئی ہیں۔کتاب کے جملہ مباحث عربی کتب میں مل جاتے ہیں، تاہم انگریزی زبان کے قاری کے لیے یہ کتاب علمِ بلاغت کی تاریخ اور علمِ معانی کے نمایاں مباحث کے تعارف کے لیے عمدہ ہے، البتہ اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ انگریزی زبان کے قاری کے لیے مسلم روایت میں پروان چڑھنے والے علوم کو معاصر فکر کی کوکھ سے پھوٹنے والے جدید علوم کے تناظر میں پیش کیا جائے۔ چناں چہ علمِ معانی کی بحث کو Semantics اور Semeiotics کے مباحث کے ساتھ مربوط کر کے انگریزی قاری کو یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ کس طرح عربوں نے ان فنون کو اتنے مربوط انداز میں پیش کیا ہے کہ لسانیات کی یہ جدید شاخیں ان سے استناد سے مستغنی نہیں ہو سکتیں۔پہلے یہ بات ذکر ہوئی ہے کہ مصنف کے نزدیک اس کتاب کی غرض وغایت یہ ہے:What we have attempted to pursue here is simply to find an answer to the following question: ‘what features of the Quranic text were found by our classic scholars to be constitutive of its miraculous status?(ہماری کاوش اس سوال کا جواب دینا ہے کہ ہمارے قدیم علما نے نصِ قرآنی کے وہ کون سے پہلو دریافت کیے جو اس کی اعجازی شان کی بنیاد ہیں؟)تاہم یہ کتاب علمِ معانی کے مباحث تک محدود ہے اگرچہ قرآنی اعجاز کے بیان میں علم بیان کا حصہ بھی کچھ کم نہیں ہےاسے بھی کتاب کا حصہ بنایا جاتا تو بہتر ہوتا۔اسی طرح علم بدیع کی گل کاریاں بھی کلام کو ایک حسن بخشتی ہیں۔ ان پر بھی ایک طائرانہ نظر ہونی چاہیے تھی۔ -
QURAN E AZIZ (MUTARJAM) URDU TARJUMA : SHEIKH U TAFSEER MAULANA AHMAD ALI LAHORI
قرآن ِ عزیز (مترجم)
اردو ترجمہ : شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری
حاشیہ 1 :حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی،صاحبِ موضح قرآن
حاشیہ 2 : شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری
QURAN E AZIZ (MUTARJAM)
URDU TARJUMA : SHEIKH U TAFSEER
MAULANA AHMAD ALI LAHORI
HASHIYA 1 : HAZRAT SHAH ABDUL QADIR MUHADDIZ DEHLVI
HASHIYA 2 : SHEIKH U TAFSEER MAULANA AHMAD ALI LAHORI
نوٹ : امام المفسرین حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلویؒ کے تفسیری حواشی اور شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ کے تشریحی حواشی یکجا صرف اسی نسخہ میں شائع ہوئے تھے، بعد کے ایڈیشنز میں حضرت لاہوریؒ کے ترجمہ قرآن کے ساتھ صرف انھی کے تشریحی نوٹس طبع کیئے گئے ، حضرت محدث دہلوی کے ” حواشی موضح قرآن ” حذف کر دئیے گئے تھے۔
حضرت لاہوریؒ کی جدوجہد و خدمات کی ایک جھلک
از:مولانا زاہد الراشدی
تاریخ اشاعت: ۶ دسمبر ۲۰۱۹ء
شیرانوالہ گیٹ لاہور میں عالمی انجمن خدام الدین کا نام سامنے آتے ہی شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس اللہ سرہ العزیز کی شخصیت اور ان کے تاریخی کردار کا منظر نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے اور تاریخ اپنے اوراق پلٹتی چلی جاتی ہے۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی نور اللہ مرقدہ کے یہ مایہ ناز شاگرد اب سے ایک صدی قبل لاہور میں تشریف لائے تھے بلکہ انہیں اس شہر میں اس خیال سے برطانوی حکومت کی طرف سے نظربند کر دیا گیا تھا کہ تحریک آزادی کا یہ مفکر اور متحرک راہنما ایک انجانے شہر میں سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکے گا۔ مگر اس مرد درویش نے ایک چھوٹی سی مسجد میں خاموشی کے ساتھ اپنی تعلیمی اور اصلاحی جدوجہد کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اثرات دنیا کے مختلف اطراف تک پھیلتے چلے گئے اور آج دنیا کا کوئی براعظم ایسا نہیں جہاں شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے شاگردوں اور ان کے شاگردوں کے تعلیمی و اصلاحی اثرات دکھائی نہ دے رہے ہوں۔ مجھے دنیا کے درجنوں ممالک میں جانے کا موقع ملا ہے اور میرے یہ بیرونی اسفار کم و بیش تین عشروں کا تسلسل رکھتے ہیں، جس کے دائرے میں ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکہ چاروں براعظم شامل ہیں، میں نے کم و بیش ہر جگہ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے براہ راست یا بالواسطہ استفادہ کرنے والے دیکھے ہیں، جو اپنی اپنی جگہ ان برکات و فیوض کو پھیلانے میں مصروف ہیں۔
حضرت لاہوریؒ اصلاً حضرت شیخ الہندؒ کی اس تحریک کے باشعور اور باہمت راہنما تھے جس کا بنیادی ہدف استعماری نظام اور قوتوں سے وطن عزیز اور عالم اسلام کی گلوخلاصی کرانا اور امام ولی اللہ دہلویؒ کے فلسفہ و حکمت کی روشنی میں پوری دنیا کی ایک متوازن، فطری اور قابل عمل نظام کی طرف راہنمائی کرنا ہے۔ حضرت لاہوریؒ نے اس کے لیے لاہور میں انجمن خدام الدین کی بنیاد رکھی اور قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کو باقاعدہ تعلیمی نظام کے طور پر رائج کرنے کے علاوہ امام ولی اللہ دہلویؒ کی مایہ ناز تصنیف “حجۃ اللہ البالغہ” سے اہل علم کو روشناس کرانے کی محنت شروع کر دی۔ اس کے نتائج و اثرات کا احاطہ اس مختصر کالم میں ممکن نہیں ہے، البتہ مثال کے طور پر اتنی بات عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے مغرب کی انتہا امریکہ اور مشرق کی انتہا ہانگ کانگ و ملائیشیا میں حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی طرز پر قرآن کریم اور حجۃ اللہ البالغۃ کے حوالہ سے علمی و فکری کام ہوتے دیکھا ہے۔
حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی خدمات کا ایک دائرہ پاکستان میں نفاذ اسلام اور تحفظ ختم نبوت کی تحریکات بھی تھا، اور وطن عزیز میں انکار حدیث کے فتنہ کے تعاقب کے لیے بھی ان کی جدوجہد سب سے نمایاں رہی ہے۔ انہوں نے علماء کرام کی ایک بڑی اور تاریخی جماعت جمعیۃ علماء اسلام کی تشکیل نو کی سرپرستی کی اور الحاد و تجدد کے بہت سے رجحانات کے سامنے سد سکندری ثابت ہوئے۔ وہ بزرگ عالم دین، شیخ کامل، باشعور راہنما، اور متحرک قائد ہونے کے ساتھ ساتھ دینی تحریکات کے کارکنوں کے لیے سرپرست کی حیثیت رکھتے تھے، کارکنوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی فرماتے تھے بلکہ خود بھی عملی محنت میں پیش پیش رہتے تھے۔
دینی تحریکات کے حوالہ سے حضرت لاہوریؒ کے ذوق و کردار کی ایک جھلک اس واقعہ میں دیکھی جا سکتی ہے جو ابھی چند روز قبل مسجد حرام مکہ مکرمہ کے مدرس فضیلۃ الشیخ مولانا محمد مکی حجازی حفظہ اللہ تعالٰی نے اپنے درس میں بیان فرمایا ہے کہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں ممتاز شیعہ راہنما سید مظفر علی شمسی گرفتار ہو کر چند ماہ جیل میں رہے اور جب رہا ہو کر وہ گھر پہنچے تو انہیں سب سے زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کا خرچہ کیسے چلتا ہوگا؟ مگر انہیں گھر جا کر معلوم ہوا کہ لاہور کے ایک بزرگ ان کے گھر راشن پہنچاتے رہے ہیں، بعد میں پتہ چلا کہ وہ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ تھے۔ شمسی صاحب ان کی خدمت میں اظہار تشکر کے لیے حاضر ہوئے تو حضرت لاہوریؒ نے فرمایا کہ آپ لوگ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جو قربانیاں دے رہے ہیں، ان پر ہمارا یہ حق تو بنتا ہے کہ ہم آپ لوگوں کے گھروں کی دیکھ بھال کریں۔
یہ حضرت لاہوریؒ کے کردار کی ایک ہلکی سی جھلک ہے، آج جب ان کی جماعت اپنی خدمات کا تسلسل جاری رکھے ہوئے ہے تو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے اور ان کے ساتھ اپنے توسل و تعلق پر بجا طور پر فخر محسوس ہوتا ہے، اللہ تعالٰی اس اجتماع کو کامیابی اور ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔(اقتباس)
“پیشکش طوبیٰ: شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری کی قرآنی فکر و سوانح”
قرآنیات کے شائقین کے لیئے انمول تحفۃ
ترجمہ و حاشیہ : حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی ؒ
تحقیق و تصحیح : علامہ اخلاق حسین قاسمی ؒ
-
Aalami Zubano Me Tarajim e Quraan Majeed
عالمی زبانوں میں تراجم قرآن مجید
از: مولانا فقیر محمد
Aalami Zubano Me Tarajim e Quraan Majeed
By : Maulana Faqeer Muhammad
-
Sindh mein Arabi, Farsi, Urdu, aur English Sindh mein ke Qurani Tarajim aur Tafaseer ka Tehqiqi Jaiza
سندھ میں عربی، فارسی، اردو، انگریزی سندھ میں کے قرآنی تراجم و تفاسیر کا تحقیقی جائزہ
(پی ایچ ڈی مقالہ)
مقالہ نگار :حافظ منیر احمد خان
۱۴۱۸ھ – 1997ء
نگران :پروفیسر عبدالرزاق میمن
شعبہ ثقافت اسلامی و تقابل ادیان – سندھ یونیورسٹی – جام شورو
Sindh mein Arabi, Farsi, Urdu, aur English Sindh mein ke Qurani Tarajim aur Tafaseer ka Tehqiqi Jaiza
(PHD: THESIS)
RESEARCH BY : Hafiz Munir Ahmed Khan
1418 Hijri – 1997 AD
Shuba-e-Saqafat-e-Islami aur Taqabul-e-Adyan – Sindh University – Jamshoro
-
Contribution of Darul-‘Ulum Deoband to the Development of Tafsir
Contribution of Darul-‘Ulum Deoband to the
Development of Tafsir
Submitted to the University of Kashmir
For the award of Master of Philosophy (M.Phil)
In Islamic Studies
By: Bilal Ahmad Wani
Under the supervision of
Prof. (Dr.) Naseem Ahmad Shah
Shah-i-Hamadan Institute of Islamic Studies
University of Kashmir, Hazratbal Campus, Srinagar-190006
June 2012
MORE FOR TOOBAA FOUNDATION’S BOOK LOVERS
تفسیر بیان القرآن مولانا اشرف علی تھانوی کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ
(پی ایچ ڈی مقالہ)
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ بحیثیت مفسرِ قرآن
(پی ایچ ڈی مقالہ)